دفاعی قدم نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو مرنے سے بچایا

عابد انورThumb


دہلی اسمبلی انتخاب میں اروند کیجریوال کو فتحیاب کرنے کا یہ انجام ہوگا تو ووٹر سو بار سوچتے، بی جے پی نے اپنی شکست کا بدلہ سیکڑوں لوگوں کی جان لیکر لیا ہے۔ تین دن دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم رہا، دکانیں لٹتی رہیں، آگ کے حوالے ہوتی رہیں مگر محافظ فسادیوں کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملاکر چلتے ہوئے دیکھے گئے۔ خاص طور پر اس وقت جب دنیاکے سب سے طاقتور شخص امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یہاں موجود تھے اس وقت دہلی میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ شاید فسادیوں نے اس موقع کو غنیمت جانا ہوگا۔ دہلی میں گزشتہ اتوار 23فروری سے شروع ہونے والے تشدد میں ا ب تک غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سرکاری طور پر ہلاک شدگان کی تعداد 45سے زائد بتائی گئی ہے۔ تقریباً دو سوسے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کی صحیح تعداد کا اب تک علم نہیں ہے کیوں کہ مختلف اسپتالوں زیر علاج ہیں اور کچھ نجی اسپتالوں میں علاج کروارہے ہیں جس کا علم سب کو نہیں ہے۔ان میں سے 70افراد گولی سے زخمی ہوئے ہیں۔ دہلی کے حالات کس قدر خراب تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ا یک بجے دہلی ہائی کورٹ کو مداخلت کرکے رات ایک بجے سماعت کرنی پڑی تھی جس میں پولیس کو ایمبولینس کو بحفاظت جانے اور مریضوں کو سرکاری اسپتال لے جانے کو یقینی بنانے کی ہدایت دی۔ اس کی ہدایت کی پیش رفت پر دن میں ایک بجے پھر سماعت ہوئی جس پر جسٹس ایس مرلی دھر سخت رخ اپناتے ہوئے اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں اور نفرت پھیلانے والے انوراگ ٹھاکر،کپل مشرا، پرویش ورما اور دیگر کے ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی یہ الگ  بات ہے کہ ان کا رات میں تبادلہ ہوگیا۔ اس کے بدلے جو دوسری بینچ بیٹھی اس نے جسٹس ایس مرلی دھر کا فیصلہ الٹ دیا۔ جس کی وجہ سے عدلیہ کا وقار مٹی میں مل گیا۔ شاید عدلیہ نے جج لویا کا حشر یاد رکھ لیا ہوگا۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہوگئے تھے کہ سنگھ پریوار سے وابستہ غنڈے عناصر ایمبولینس اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے نہیں دے رہے ہیں۔ لوگ موٹر سائیکلوں پر لمبا فیصلہ طے کرکے کسی طرح ہسپتال پہنچانے پرمجبور تھے۔ ایمبولینس کو نہیں آنے دیا جارہاہے۔ پوری سڑکوں پر ہندو شدت پسندوں کا کنٹرول تھا۔پولیس یا تو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یا پھر شرپسندوں کے ساتھ مل کر پتھراؤ کر رہی ہے۔بعض ویڈیو میں پولیس کو شرپسندوں کے ساتھ پتھراؤ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو شرپسندوں کو پولیس تحفظ فراہم کر رہی ہے اور ابعض ویڈیو میں انہیں پتھر فراہم کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔بعض ویڈیو میں پولیس کو پتھر اکٹھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے باہر سے غنڈے بلوائے گئے تھے۔ مسلم مظاہرین نے پتھر چلانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں دفاع میں اور اپنی جان بچانے کے لئے پتھراؤ کا سہارا لینا پڑا۔ کیوں کہ دوسری جانب (سی اے اے کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے ہندوؤں)سے گولیاں چلائی جارہی تھیں۔ اگر ہم پتھر نہ چلاتے تو ہم لوگ سینکڑوں کی تعداد میں مارے جاتے۔ کیوں کہ پولیس ہماری حفاظت کے لئے تو تھی نہیں۔ پولیس تو شرپسندوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرنے والوں میں سے زائد مسلمان ہیں۔ اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

مقامی لوگوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ فساد نے1984کے سکھ فسادات کی یاد تازہ کردی ہے۔ شرپسندوں نے پولیس کی مدد سے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا اور ان کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی ہے۔ ہندوؤں کے اپنے گھروں پر بھگوا جھنڈ لہرانے کی بات کہی گئی ہے، تاکہ حملہ کرتے وقت ان کے گھر اور دکانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ ہلاک شدگان کو دیکھ کرلگتا ہے کہ ان کو نشانہ بناکر گولیاں ماری گئی ہیں۔ جس طرح 19 دسمبر کو اترپردیش میں پولیس نے مسلمانوں کو سینے، سر، پیٹھ، آنکھ، گلے اور کمرسے اوپر گولیاں ماری تھیں اسی طرح یہا بھی گولیاں ماری گئی ہیں۔ موج پور چوراہے پر شرپسندوں تلاشیاں لے کر جانے دے رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دلی میں پولیس کی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پولیس کی موجودگی میں ہندو شرپسندوں کو تلاشی لینے کی ہمت کیسے ہوئی ہے۔ جب تک اوپر سے ایسا کرنے کا حکم نہ ہوگا۔ دہلی کو گجرات بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ جن دو لوگوں نے گجرات کو جلایا تھا آج وہی لوگ دہلی میں موجود ہیں۔ یہاں مسلمانوں کو گجرات کی طرح نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی فامولہ اپنایا گیا۔ جس طرح گجرات میں پولیس نے فسادیوں کو تحفظ فراہم کیا تھا اسی طرح یہا ں کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے باہر تربیت یافتہ غنڈوں کو بلایا گیا تھا، ٹرکوں سے پتھر لائے گئے، ننگی تلوار لیکر گھومتے نظر آئے اور تابڑ توڑ گولیاں چلائی گئی ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت داخلہ کشن ریڈی نے کل حیدرآباد میں کہا، ”کل دہلی میں ہوئے تشدد میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ گزشتہ دو ماہ سے وہاں دھرنا چل رہا ہے لیکن مرکزی حکومت نے انہیں پرامن طریقے سے انجام دینے کا موقع دیا۔کل ہونے والے ئے تشدد ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ مسٹر کشن ریڈی کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ گزشتہ دو ماہ سے کوئی تشدد نہیں ہوا تو اب کیسے ہوگیا۔ تشدد بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیان اور سی اے اے کی حمایت میں مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔ کیوں کہ انہوں نے لوگوں کو بھڑکایا۔ اکسایا لیکن پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ کپل مشرا ڈپٹی پولیس کمشنر کے سامنے دھمکی دیتا رہا لیکن ڈی سی پی خاموش رہے اور اب تک خاموش ہیں۔ اس کے بجائے کوئی مسلمان یا سماج وادی لیڈر ہوتا تو دہلی پولیس اب تک ملک سے غداری سمیت درجنوں دفعات کے تحت مقدمہ دائر کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال چکی ہوتی۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سمجھ سکتے ہیں کس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وہ ہندوؤں کو شرپسند نہیں سمجھتے۔ پولیس بھی انہیں شرپسند نہیں مانتی۔ اگر مانتی تو کپل شرما اور ان جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فساد حکومت نے قومی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کو ختم کرانے کے لئے کروایا ہے۔ حکومت نے گزشتہ دو ماہ سے اس پرامن مظاہرہ کو ختم کرانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس کے برعکس اس کی پوری دنیا میں بدنامی ہورہی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لئے اس نے فساد کا راستہ منتخب کیا ہے۔ دہلی میں فسادات کے بارے میں افواہ پھیلانے کا مقصد مسلمانوں میں جہاں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ہے وہیں فرقہ پرست طاقتوں کا تیاریوں کا بھی جائزہ لینا ہے۔ اس لئے مسلمان بہت سوچ سمجھ کر کسی بھی بات پر دھیان دیں۔ افواہ سے بچیں اور محتاط رہیں۔ 
 سپریم کورٹ شمال مشرقی دہلی میں بھڑکے تشدد کے پیش نظر پولیس کارروائی اور سکیورٹی اقدامات کیلئے ہدایت مانگنے سے متعلق مداخلت کی اپیل پر بدھ کو سماعت کریگا۔وکیل محمود پراچہ نے بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد،سابق سی آئی سی وجاہت حبیب اللہ اور شاہین باغ کے رہنے والے بہادر عباس نقوی کے ذریعہ دائر عرضی کا خصوصی طورپرذکر منگل کو جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس کے ایم جوزف کے سامنے کیاگیا۔عرضی گزاروں کے مطابق،گزشتہ پیر کو جو تشدد بھڑکا،وہ بی جے پی لیڈر کپِل مشرا  کے ذریعہ دئے گئے اشتعال انگریز بیانوں کا نتیجہ تھا۔الزام ہے کہ اترپردیش کیآس پاس کے گاؤں سے غیر سماجی عناصر بسوں اور ٹرکوں میں بھر کر دہلی میں گھس آئے ہیں اور دہلی کے لوگوں اور پرامن مظاہرین پر حملہ کررہے ہیں۔یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس حملے میں زخمی ہوئے لوگوں  کے زریعہ درج کی گئی شکایتوں پر کارروائی کرنے میں  ناکام رہی۔مداخلت کی اپیل میں پولیس کوان شکایتوں پر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت  دینے کا مطالبہ کیاگیاہے،جو  23فروری کی شام کو شروع ہوئے حملوں کے سلسلے میں درج کرائی گئی ہے اور جو 24فروری کے پورے دن میں بڑھی ہیں۔مداخلت کی اپیل میں دہلی کے شاہین باغ اور دیگر مقامات پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے سکیورٹی مہیا کئے جانے کی ہدایت بھی دئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔شمال مشرقی دہلی کے  فساد زدہ  علاقوں میں معمولات زندگی آہستہ آہستہ معمول پر واپس آنے کے ساتھ ہی پولیس نے فسادیوں کو شکنجہکسنا شروع کر دیا ہے اور اب تک254 ایف آئی آر درج کرکے  903  لوگوں کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا گیا یا گرفتار کیا گیا ہے۔شمال مشرقی دہلی کے موج پور، چاند باغ، گوکل پوری، کھجوری سمیت کئی دیگر علاقوں میں اس ہفتے کے شروع میں شہریت (ترمیمی) قانون (سی ا ے اے) کے سلسلے میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں اب تک 45 لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ تقریباً 300 زخمیوں کا مختلف اسپتالوں میں علاج چل رہا ہے۔
دہلی میں پولیس کی نگرانی میں جس طرح تین دن تک قتل و غارت گری جاری رہی اس سے گجرات اور سکھ فسادات 1984کی یاد تازہ ہوگئی۔ دراصل اس خون ریز فسادات کا مقصدمسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہے جو شاہین باغ اور ملک کے دوسرے حصے میں شہریت(ترمیمی)قانون کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے نکل گیا ہے۔مرکزی حکومت، سنگھ پریوار اور دیگر فسطائی تنظیموں کو لگتا ہے کہ جو ان کی صدسالہ کوشش ہے  وہ رائیگاں جارہی ہے۔ شاہین باغ مظاہرہ نے مسلمانوں سے خوف نکال دیا ہے۔ کیوں کہ خاتون مظاہرین نے مظاہرہ کے دوران بار بار کہا تھا کہ حراستی کیمپ میں مرنے سے بہتر ہے کہ ہم سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے مرجائیں۔ یہی بات بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہی ہے اور اس کے وزیر داخلہ نے دہلی کے فسادات کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ صرف رسمی میٹنگ کرتے رہے۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بجائے راج گھاٹ میں فوٹو سیشن میں مصروف رہے۔ اس سے اس نظریہ کو تقویت ملی ہے کہ وہ آر ایس ایس کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ اگر وہ اپنی ٹیم کے ساتھ فساد زدہ علاقے میں چلے جاتے تو اتنے بڑے پیمانے پر جان کا نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی جائداد کا نقصان ہوتا۔

Comments