عام بجٹ مسلمانوں کے لئے مایوس کن
تیشہ فکر عابد انور
دنیا میں قوموں کو وہی چیزیں ملتی ہیں جن کا وہ
متحمل ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دینے والے سے بھی زیادہ اہمیت مانگنے والے
کی ہوتی ہے وہ کون ہے ان کی اہمیت کیا ہے۔ دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ پوری
دینا میں یہ بات سکہ رائج الوقت کی طرح عام ہے کہ حقوق بھیک میں نہیں ملتے بلکہ
لینا پڑتا ہے، اس کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور قربانی دینی پڑتی ہے۔ دنیا میں
ایسی شرافت تو رہی نہیں کوئی حکمراں بغیر مانگے خود سے وہ سارے حقوق دے دے جس کا
وہ قوم متحل ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تو ہر چیز سیاست سے عبارت
ہے ، نفع و نقصان سے منسلک ہے ، رضامندی اور ناراضگی سے وابستہ ہے۔ یہاں کسی طبقے
کو کچھ دینے سے پہلے اس کا اچھی طرح اندازہ لگالیا جاتا ہے کہ اس سے اس کو کتنا
فائدہ پہونچے گا اور کوئی اس سے ناراض تو نہیں ہوگا کہ جس سے ان پر’ منہ بھرائی‘
کا الزام عائد ہوجائے اور انتخابات میں لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ ہندوستان دنیا کا
شاید ایسا واحد ملک ہے جہاں ایک طبقہ (مسلمان) کو دینے سے دوسرا طبقہ (ہندو) کے
ناراض ہونے کا ڈر سیاسی پارٹیوں کو ستانے لگتا ہے ۔اسی لئے یہاں کی سیاسی پارٹیاں
مسلمانوں سے وعدہ کرکے اور انہیں فرقہ پرست پارٹیوں کا خوف دکھاکر ہی کام چلا لیتی
ہیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا رول مسلم لیڈر شپ (جس میں مسٹر و مولوی دونوں شامل
ہیں) کی وجہ سے صرف محض ایک بھکاری کا رہ گیا ہے جس طرح کسی چوراہے پر بھیک مانگنے
والے آتے جاتے راہگیروں اور مسافروں کے رحم و کرم ہوتے ہیں۔وہ جتنی بھیک دے دیں اس
پروہ اکتفا کرلیتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ ہندوستانی حکومت سلوک کرتی ہے۔
پورے ہندوستان میں کسی ریاستی حکومت نے وعدہ سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کاکوئی کام
نہیں کیا۔ ملائم سنگھ یادو کو ہی لیجئے وہ رات دن مسلم نوجواں کی رہائی کی بات
کرتے ہیں لیکن یوپی کی جیلوں میں بند سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو رہا کرنے
کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہیں مسلم نوجوانوں کی بے گناہی پر مبنی نمیشن کمیشن کی
رپورٹ پر عمل کرنا تو دور کی بات اسے عام کرنا بھی گوارہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جہاں
جہاں کانگریس کی حکومت ہے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی عام بات ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں
ہے مسلمان بی جے پی حکومت میں محفوظ ہیں۔ بی جے پی کی مقوی غذا ہی مسلم دشمنی ہے
اس سے کسی بہتری امید کرنا صحرا میں پانی کے چشمہ کو تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
ہندوستان میں ایک بار کوئی قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو حکومت کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں
لیکن مسلمان جو آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت ہے کچھ بھی کرلے
حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کانگریسی حکومت نے مسلمانوں اپنا زر خرید
غلام سمجھ لیا ہے یا کانگریسی مسلم لیڈروں نے اعلی کمان کو سمجھا دیا ہے کہ عملی
طور پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ قوم تو صرف وعدے پر ہی اپنی جان نچھاور کرنے
کو تیار رہتی ہے۔ اس قوم کو قسطوں میں اور گھٹ گھٹ کرمرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کانگریس کے اس نو سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کو جو نقصان ہوا ہے اس سے
بڑا کوئی نقصان ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا نقصان ہوا ہے یہ کسی آئندہ کالم لکھوں
گاسردست اس وقت مرکزی بجٹ پیش نظر ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی نئی
داستان رقم کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ پی چدمبرم نے لوک سبھا میں ہندوستان
کے 2013-14مالی سال کے لئے اپنا سالانہ آٹھواں 1665297 کروڑ روپئے بجٹ پیش کیا جس
میں دفاعی بجٹ 203672(دو لاکھ تین ہزار کروڑ روپئے )ہے اس کے علاوہ اس امر کی یقین
دہانی کرائی گئی ہے کہ ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لئے فنڈ فراہم کرنے کی راہ میں
کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی اور اگر ضرورت پڑی تو ملک کی دفاع کے لئے اضافی فنڈ دیا
جائے گا۔ آئندہ انتخابی سال ہونے کی وجہ سے وزیر خزانہ نے چور دورازے سے عوام کی
جیپ پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ وزیر خزانہ نے 12ویں 5سالہ منصوبے 2012-13میں بتایا کہ عالمی
اور گھریلو معاشی بحالی کا اندازہ لگاتے ہوئے کل اخراجات 1490925کروڑ روپئے طے کئے
گئے تھے۔ البتہ سست روی اور بچت کے اقدامات کی وجہ سے نظر ثانی شدہ تخمینہ
1430825کروڑ روپئے یا بجٹ تخمینے کا 96فیصد کردیا گیا۔ بجٹ تخمینے کے لئے کل
اخراجات 1665297کروڑ روپئے اور منصوبہ جاتی اخراجات 555322کروڑ روپئے طے کرنے کا
متحمل ہوسکاہوں ۔ وزیر خزانہ نے اراکین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ جان کر
خوشی ہوگی کہ 2013-14کے لئے منصوبہ جاتی اخراجات سال روا ں کے لئے نظر ثانی شدہ
تخمینے سے 29.04فیصد زیادہ ہوں گے۔ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے لئے 37330کروڑ
روپئے ، اس میں قومی صحت مشن جس میں دیہی مشن اور مجوزہ شہری مشن شامل
ہیں21239کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اس بجٹ میں تعلیم وتربیت اور تحقیق کے لئے
4727کروڑ روپئے ، آیوش کے محکمے کے لئے 1069کروڑ روپئے ، ایمس جیسے 6ادار کے لئے
1650کروڑ روپئے، فروغ انسانی وسائل کی وزارت کے لئے 65867کروڑروپئے ، اسکولوں میں
مڈڈے میل کی اسکیم کے لئے بجٹ میں 13215کروڑ روپئے، آئی سی ڈی ایس کے لئے
17700کروڑ روپئے، پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت کے لئے 15260کروڑ روپئے
، جبکہ پانی صاف کرنے کے پلانٹوں کے لئے بجٹ میں 1400کروڑ روپئے، دیہی ترقی کی
وزارت کے لئے 80194کروڑ روپئے منریگا کے لئے 33000ہزارکروڑ روپئے اور آئی اے وائی
کے لئے 15184کروڑ روپئے ، جواہر لال نہرو قومی شہری تجدیدی مشن کو 14883کروڑ
روپئے، وزارت زراعت کے لئے 27049کروڑ روپئے، اس کے علاوہ ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے
شروع کی گئی ٹیکنالوجی اپ گریڈییشن فنڈ اسکیم کو بارہویں 5سالہ منصوبے میں ایک
لاکھ 51ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری سے جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے کھیل کود
،سائنس وٹکنالوجی اور ڈاکخانوں کے لئے بھی نئے بجٹ میں کافی رقم مختص کی ہے اور
مرکزی بجٹ میں اقلیتوں کے لئے 3511کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بجٹ
میں تین ہزار کروڑ روپے تھا جس کا نصف حصہ خرچ بھی نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ خواتین
کی فلاح و بہبود اور خواتین بینک کھولنے کے لئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
سارے شعبوں کے لئے وزیر خزانہ نے خزانہ کا
دہانہ کھول دیا لیکن جیسے مسلمانوں کو کچھ دینے کی باری آئی ہے انہوں نے اس کا منہ
بند کردیا اور بند کرتے وقت جو کچھ گرجاتا ہے وہی مسلمانوں کا مقدر (کاغذی طور پر
عملی طور پر نہیں) ٹھہرا۔ مسلمانوں کی کیا اوقات ہے اور حکومت انہیں کتنی وقعت
دیتی ہے اس کا اندازہ وزیر خزانہ کے بجٹ تقریر کے اس جملے سے ہوتا ہے۔ ’’ انہوں نے
کہا کہ تمام اہم پروگراموں کے لئے مناسب طورپر فنڈ مختص کئے گئے ہیں.... میں اس
ایوان میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ میں ہر وزارت اور ہر محکمے کو اس کے فنڈ
خرچ کرنے کی صلاحیت کے مطابق ہی مناسب فنڈ فراہم کئے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کی حیثیت
اور صلاحیت کے حساب سے ہی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے فنڈ الاٹ کیا ہے۔ مسلمانوں کی
حیثیت ہی اتنی ہے تو ا س میں وزیر خزانہ کا کیا قصور۔ مسلمانوں کی سماجی و معاشی
حالت پرایک نظر ڈالیں کہ گزشتہ 65 برسوں کے دوران ہندوستان میں کانگریسی حکومت نے انہیں
کیا سے کیا بنادیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں خط افلاس کے نیچے زندگی
گزانرنے والے 94.9 فیصد مسلمانوں کو مفت اناج نہیں مل رہا ہے۔ صرف 3.2 فیصد
مسلمانوں کو سبسڈائزڈ قرض کا فائدہ مل رہا ہے۔ صرف 2.1 فیصد دیہی مسلمانوں کے پاس
ٹریکٹر ہیں۔تعلیم کی حالت اور بھی خراب ہے۔ گاؤں میں 54.6 فیصد اور شہروں میں 60
فیصد مسلمان کبھی کسی اسکول میں نہیں گئے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی تعداد 25
فیصد سے زیادہ ہے، لیکن سرکاری ملازمت میں وہ صرف 4.2 فیصد ہیں۔فوج، پولیس اور نیم
فوجی دستوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مسلمانوں کی بے بسی کا اعداد و
شمار جیلوں سے ملتا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد جیل میں زیادہ
ہے۔ مہاراشٹر میں 10.6 فیصد مسلمان ہیں، لیکن یہاں کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد
32.4 فیصد ہے۔ دہلی میں 11.7 فیصد مسلمان ہیں، لیکن جیل میں بند 27.9 فیصد قیدی
مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر تمام ریسرچ کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہیں گے
کہ حکومت کے کسی بھی محکمہ میں مسلمانوں کی حصہ داری آبادی کے تناسب سے نہیں
ہے۔انتظامی خدمات میں مسلمانوں کی تعداد قابل رحم ہے۔ ملک میں صرف 3.22 فیصد ائی
اے ایس، 2.64 فیصد آئی پی ایس اور 3.14 فیصد یف ایس مسلمان ہیں۔ اس سے بھی زیادہ
حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ سکھوں اور عیسائیوں کی آبادی مسلمانوں سے کم ہے،
لیکن ان خدمات میں دونوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ ملک کے سرکاری محکموں کی
حالت بھی ایسی ہی ہے۔عدلیہ میں مسلمانوں کی حصہ داری صرف 6 فیصد ہے۔جہاں تک بات
سیاست میں حصہ داری کی ہے تو یہاں بھی حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیںآزادی کے
65سال کے بعد بھی اب تک صرف سات ریاستوں میں مسلم وزیر اعلی بن پائے ہیں۔حیرانی کی
بات یہ ہے کہ جموں کشمیر کے فاروق عبداللہ کے علاوہ ملک میں ایک بھی ایسا مسلم
وزیر اعلی نہیں جو پانچ سال تک حکومت کر سکا ہو۔ سیاست میں مسلمان حاشیہ پر ہیں،
سماجی پسماندگی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے مختلف ستونوں میں بھی مسلمان حاشیہ پرہیں۔
ہندوستان میں دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی
پسماندگی پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے اس
کے مطابق گجرات، یوپی، مغربی بنگال اور آسام کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں میں غربت
کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ہندوستان میں یواین ڈی پی کی سربراہ یا کنٹری ڈائریکٹر
کیٹلین وائزن نے کہا کہ ہندوستان اپنے ملینیم اہداف کو پورا کرنے کی طرف گامزن ہے
جس کے تحت افلاس میں نصف حد تک کمی اور تعلیم کے میدان میں بنیادی تعلیم اور صنفی
مساوات آتے ہیں۔وائزن کے مطابق جہاں تک مذہبی بنیاد پر غربت کا سوال ہے تو
مسلمانوں میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں میں غربت کا یا منظر خاص طور پر
’آسام، اتر پردیش، مغربی بنگال اور گجرات‘ کے دیہی علاقوں میں نظر آتا ہے۔ مودی کا
دعوی ہے کہ وہ تمام چھ کروڑ گجراتیوں کی ترقی کی بات کرتے ہیں شاید ان چھ کروڑ
گجراتیوں میں مسلمانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا ہوگا۔ ’مجموعی طور پر مزدور طبقے
کے لوگ زیادہ تعداد میں خط افلاس سے نیچے ہیں۔ پچاس فیصد کاشتکاری میں لگے مزدور
اور چالیس فی صد دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے مزدور اس زمرے میں آتے ہیں۔دیہی
علاقوں اور کاشتکاری کے شعبے میں حالات ناگفتہ بہ ہیں اور یہ کہ دیہی لوگوں کے لیے
مواقع توقع کے مطابق بہتر نہیں ہوئے ہیں۔گزشتہ سال منصوبہ بندی کمیشن نے دعویٰ کیا
تھا کہ ملک میں غریبوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے لیکن شہری علاقوں میں
تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ غربت ہے۔منصوبہ بندی کمیشن نے اپنے
اعداد و شمار میں کہا تھا کہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار دس کے درمیان پانچ کروڑ لوگ
’غربت‘ کے زمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن کمیشن نے صرف ان لوگوں کو
غریب مانا ہے جو روزانہ اٹھائیس روپے سے کم میں گزارا کرتے ہیں۔سروے میں مذہب کی
بنیاد پر بھی معلومات یکجا کی گئی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں
آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ غربت ہے جبکہ سب سے کم غربت
عیسائیوں میں ہے۔
ان رپورٹوں، اعدادو شمار ، سچر کمیٹی کی کمیٹی
کی سفارشات اوررنگناتھ مشرا کمیشن کی ایکشن ٹیکن رپورٹ کے باوجود 16 لاکھ کروڑ
روپے سے زائد کے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے محض 3511 کروڑ روپے مختص کرنا مسلمانوں کے
ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ یہ رقم اگر صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہوتی تو کچھ بہتری
کی توقع کی جاسکتی تھی لیکن اقلیت میں سکھ، جین، پارسی، عیسائی، بودھسٹ بھی شامل
ہیں۔ اقلیتی کمیشن سے اور اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے فیض یافتگان کے اعداد و
شمار پر نظر ڈالیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا کوئی
کام نہیں ہوتا اور نہ ہی قرض ملتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ تعصب عام بات ہے۔ ایسے
تمام اداروں کے منیجنگ ڈائرکٹر ،چیف ایکزی کیوٹیو افسراور چیف اکاؤنٹنٹ ، اکاؤنٹنٹ
غیر مسلم ہوتے ہیں جنہیں اس لئے بٹھائے جاتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا کوئی کام نہ
کریں اور خانہ پری کے نام ان کی ساری درخواستیں رد کرتے رہیں۔ حکومت بجٹ کا سارا
پیسہ سکھ، جین، پارسی، عیسائی اور بودھسٹ پر خرچ کرتی ہے اوراس میں نام مسلمانوں
کا بھی شامل ہوجاتا ہے۔ وجہ کیا ہے حکومت مسلمانوں کو خاطر میں کیوں نہیں لاتی
جبکہ مسلم ووٹ سے ہی اسے حکمراں بننے کا شرف حاصل ہواہے تو بات صاف ہے ہمارے یہاں
لیڈر شپ نہیں ہے اور جو ہیں وہ صرف اور صرف دلال اوِر پارٹی کے وفادارہیں ۔ایسے
نام نہاد مسلم لیڈروں سے نفع کم نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ وزیر کا کام اپنی بات
کابینہ میں رکھنے اور منوانے کی ہوتی ہے لیکن مسلم وزیر اپنی بات کہنے کیلئے
وزرائے کے دروازے کا چکر لگاتے ہیں، میمورنڈم پیش کرتے ہیں اور کچھ وزیر تو کالم
لکھ کر (یا لکھواکر) مشورہ دیتے ہیںیا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم وزیروں کی کیا اوقات ہے اور اگر مسلم وزیروں
کا یہ حال ہے تو مسلمانوں کا کیا حال ہوگا۔
ی۔۶۴،
فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو،
جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment