لوک آیکت کی بحالی سے نریندر مودی کی
بدعنوانی سے پردہ اٹھ سکے گا؟
تیشہ فکر عابد انور
فاشسٹ طاقت کی ایک خاص شناخت ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کبھی نہیں کرتی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی دلیل کو تسلیم کرتی ہے ۔ ان کی سوچ پتھر کی طرح سخت ہوتی ہے جس پر کسی سچ کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اس آئیڈیا لوجی پر سختی سے قائم رہتی ہے بلکہ اس کا دفاع بھی نہایت مضبوطی کے ساتھ کرتی ہے خواہ اسے کہیں سے کوئی لنگڑی لولی دلیل یا اسے اپنی ہی کہی ہوئی گزشتہ بات سے انحراف ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور کتنے ہی دہرے پیمانے کیوں نہ اپنانے پڑے وہ کبھی بھی اس میں کوئی جھجھک اور عار محسوس نہیں کرتی۔ ان فرقہ پرست طاقتوں کی بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی دوسری ریاست میں کوئی بات پیش آجائے اور معاملہ مسلمانوں کا نہیں ہے تو آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں۔ جرائم کا کوئی معاملہ ہو اسے اپنی ریاست نظر میں نہیں آتا۔ مدھیہ پردیش میں ایک آئی پی ایس افسر کا پتھر مافیا نے قتل کردیا لیکن قانون و انتظام پر کوئی سوال نہیں اٹھا جب کہ اس میں حکمراں پارٹی کے اہلکاربھی شامل تھے لیکن یہ معاملہ میڈیا میں کوئی خاص جگہ بنانے میں ناکام رہا تھا۔ بدعنوانی کے خلاف جب انا ہزارے نے 2011 میں مہم شروع کی تھی تو اس وقت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے مہم کو کامیاب بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا جس کا اعتراف اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی کیا تھا لیکن انا کی ٹیم کو گجرات میں لوک آیکت کی خالی جگہ اور نہ ہی وہاں کا کرپشن نظر آیا۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ایک چپراسی سے لیکر ایک اعلی افسران کے گھر چھاپے میں اربوں روپے کی ناجائز دولت برآمد ہوتی رہی ہے لیکن ان طاقتوں کو بدعنوانی نظر نہیں آئی۔ بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف سب سے زیادہ مورچہ سنبھال رکھا ہے لیکن اسے کرناٹک ، چھتیس گڑھ. مدھیہ پردیش، گجرات اور اپنی حکمرانی والی دیگر ریاستوں کی بدعنوانی نظرنہیں آتی۔ گجرات قتل عام کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ پوری دنیا میں اس قتل عام کی مذمت کی اور بہت سے ممالک نے مودی کو ویزا دینے پر پابندی عائد کردی ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں دنیا کے سامنے کون سال منہ لے جاؤں گا اور مودی کو انہوں نے ’راج دھرم‘ نبھانے کا مشورہ دیا تھا جس پر مودی نے کہا تھا کہ انہوں نے ’راج دھرم‘ ہی نبھایا ہے۔ گویا قتل عام انجام دینا ان کا راج دھرم رہا ہو۔ ہزاروں بار ان سے قتل عام پر معافی مانگنے کے لئے کہا گیا اور درجنوں بار سپریم کورٹ نے ان کے رویے پر سرزنش کی لیکن فاشسٹ کی شناخت کے مطابق ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہے۔ یہی رویہ نریندر مودی نے لوک آیکت کے سلسلے میں اپنایا۔ گزشتہ دس برسوں سے انہیں لوک آیکت کو مقرر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ آخر کار گورنر ڈاکٹر کملا بینی وال نے گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے کرنے کے بعد جسٹس (سبکدوش ) مہتا کو لوک آیکت مقرر کردیا تو فرقہ پرستوں وفاقی ڈھانچہ پر حملہ نظر آنے لگا ۔چھوٹے سے بڑے لیڈر نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو وفاقی ڈھانچہ حملہ قرار دیا۔
لوک آیکت کی تقرری کا معاملہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک پہنچا اور سپریم کورٹ نے اسے صحیح قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس آر اے مہتا کو گجرات کا لوک آیکت مقرر کئے جانے کے گورنر کملا بینی وال کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ریاستی حکومت کی اپیل کو مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جسٹس مہتا کی تقرری کو قانونی قرار دیا ۔عدالت نے کہا کہ گورنر وزارتی کونسل کی مشورہ کے تحت کام کرنے کے لئے مجبور ہے لیکن جسٹس مہتا کی تقرری درست تھی کیونکہ یہ فیصلہ گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے کے بعد کیا گیا تھا۔ جسٹس مہتا کو اگست 2011 میں گجرات کا لوک آیکت مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے گجرات ہائی کورٹ نے بھی مہتا کی تقرری کو صحیح قرار دیا تھا اور وزیر اعلی مودی پر تنقید کی تھی۔ سپریم کورٹ نے کورٹ نے2جنوری2013 کو اپنے فیصلے میں کہا تھا وزیر اعلی اس بھرم میں کام کر رہے ہیں کہ وہ چیف جسٹس کی برتری اور اہمیت کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔جسٹس مہتا کی تقرری کے خلاف ریاستی حکومت کی درخواست کو مسترد کرکے مودی حکومت کو ایک بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔ گجرات حکومت نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ گورنر کملا بینی وال نے گجرات حکومت سے مشورہ کئے بغیر ہی لوک آیکت کی تقرری کر دی تھی۔گجرات کے لوک آیکت کے عہدے پر جسٹس آراے مہتا کی تقرری پر سپریم کورٹ کی مہر لگنے کے بعد گجرات حکومت نے بھی اس پر عمل کا اعلان کر دیا ہے۔گجرات کے وزیر قانون بھوپیندر سنگھ چڈاسما نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ عدالت کے فیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں اور ہم اس پر جلد ہی عمل کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی اتنی ہی صاف و شفاف ہے تو اسے لوک آیکت سے کیوں ڈر لگ رہا ہے۔ کیا وہ کرناٹک کے یدی یورپا کے گھپلہ میں پھنسنے کی وجہ سے پریشان ہیں اور یہ خوف ستا رہاہے کہ کہیں ان کا حشر بھی یدی یورپا جیسا نہ ہو ۔ ایسا نہیں ہے کہ گجرات میں بدعنوانی نہیں ہوئی ہے ۔ وہاں بدعنوانی کا بول بالا ہے ۔ بدعنوانی کو اجاگر کرنے والا میڈیا نریندر مودی اور بی جے پی کی مٹھی میں ہے۔ کانگریس وہاں بالکل ناکارہ ہے۔ بدعنوانی پر نظر رکھنے کے لئے وہاں کوئی ڈھانچہ نہیں ہے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ نریندر مودی کے خلاف کوئی آواز اٹھاسکے۔ ایسی صورت میں بدعنوانی اجاگر ہوگی تو کیسے ہوگی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق گجرات میں ایک لاکھ کروڑ روپے زیادہ کا گھپلہ ہوا ہے۔ نینو کے لئے ساند (احمد آباد) میں قائم نینو کار پروجیکٹ کے لئے گجرات کی مودی حکومت کے ذریعہ کئے گئے لامحدود بدعنوانی کا ایک بڑی مثال ہے، جس سے گجرات کو 33 ہزار کروڑ سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا ہے ۔ شروع میں یہ پروجیکٹ سنگور (مغربی بنگال) میں قائم کیا گیا تھا لیکن ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بینرجی کی زبردست مخالفت کی وجہ سے یہ پروجیکٹ خطرے میں پڑگیا تھا ۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے نریندر مودی نے ٹاٹا موٹرز سے خفیہ ڈیل کی۔بظاہر وہ یہ کہتے رہے کہ نینو کار پروجیکٹ کے لئے پہل کر کے وہ گجرات کی خوشحالی کے دروازے کھول رہے ہیں۔ مودی اور ٹاٹا کے درمیان اس ڈیل میں نیرا راڈیا نے بچولیے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈیل کے تحت گجرات حکومت نے ٹاٹا موٹرز لمیٹڈ کو نینو کار پروجیکٹ سنگور (مغربی بنگال) سے ساند (گجرات) میں لانے کے لئے 700 کروڑ روپے دیے۔ پورے پروجیکٹ کی قیمت اب 2900 کروڑ روپے ہو گئی تھی۔ اس پروجیکٹ میں ٹاٹا موٹرز کو 1100 ایکڑ زمین 900 روپے اسکوائر میٹر کے حساب سے دی گئی اور صرف 400 کروڑ روپے ہی ٹاٹا موٹرز سے لئے گئے جبکہ اس وقت اس زمین کی قیمت 4000 روپے فی اسکوائر میٹر تھی جب کہ یہ زمین ایک یونیورسٹی کے لیے مختص تھی۔اسی مودی حکومت نے ادانی گروپ کو فائدہ پہنچاکر ریاست کو دس ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے ادانی لینڈ کو مدرا پورٹ اور مدرا اسپیشل اکونومی زون کی تعمیر کے لئے زمین الاٹمنٹ میں براہ راست 10 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔گروپ کو 38683790 اسکوائر میٹر زمین کا الاٹمنٹ 2003۔04 میں کیا گیا تھا۔اس زمین کے بدلے میں کمپنی نے 46,03,16,92 روپے قیمت ادا کی۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس کے لئے سرکاری قیمت 1 روپے سے 32 روپے فی اسکوائر میٹر رکھی گئی لیکن زیادہ تر زمینیں 1 روپے فی اسکوائر میٹر کے حساب سے ہی دے دی گئی۔ اس زمین کا رقبہ طے کرکے اس کو کچھ ہزار اسکوائر میٹر کے چھوٹے پلاٹوں میں پبلک سیکٹر کمپنیوں کو 800 سے 10 ہزار روپے فی اسکوائر میٹر میں الاٹ کر دیا گیا۔ ادانی گروپ نے یہی زمین 800 روپے اسکوائر میٹر سے لے کر 10000 روپے اسکوائر میٹر کی قیمت میں دوسری کمپنیوں کو فروخت کی۔ اس سے حکومت کے خزانے کو تقریبا 10 ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔اسی طرح نریندر مودی حکومت نے نوساری ایگریکلچر یونیورسٹی کی پرائم لوکیشن کی زمین بغیر نیلامی کے عمل کے ایک 7 سٹار ہوٹل بنانے کے لئے دے دی گئی۔ سورت شہر کی یہ زمین وہاں کے کسانوں نے ایک بیج فارم کے قیام کے لیے 108 سال پہلے عطیہ کی تھی۔ اس زمین کوسورت میونسپل کارپوریشن بھی حاصل کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے واٹر ٹریٹمنٹ پروجیکٹ کیلئے ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود اسے نہ دے کر چھترالا گروپ کو یہ زمین دی گئی ۔ وہ بازار کی قیمت انتہائی کم پر۔ چھترا لاگروپ نے 224کروڑ ادا کیا جب کہ بازارکی قیمت 650 کروڑ روپے تھی۔ اسی طرح ایسسار گروپ اور دیگر گروپوں کو زمین اور دیگر رعایتیں من مانے طریقے سے دی گئی ہیں۔ایسسار کو گجرات حکومت نے20,760,000مربع میٹر زمین الاٹ کر دی جس سے کافی زمین کا حصہ (کوسٹل ریگلیشن زون) (سی آر زیڈ) اور فاریسٹ کے علاقے میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ضابطے کے مطابق کوئی بھی ترقیاتی کام یا تعمیر (سی آر زیڈ) اور جنگلاتی زمین کے اوپر نہیں ہو سکتی اور حکومت گجرات نے یہ زمین کوڑیوں کی قیمت پر ایسسار گروپ کودے دی۔جو زمین ایسسار گروپ کو الاٹ کی گئی ہے وہ جنگلاتی زمین ہے اور اسی وجہ سے فاریسٹ آفیسر کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ انڈین فاریسٹ ایکٹ 1927 کے تحت چار الگ الگ طرح کے معاملات بھی درج کئے گئے اور 20 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا اور اس جنگلاتی زمین پر جو غیر قانونی تعمیر کرایا گیا تھااسے فوری طور پر توڑنے اور وہ زمین فوری محکمہ جنگلات کو واپس کرنے کے لئے کہاگیا تھا ۔ مودی نے ایسسار گروپ پر کوئی کارروائی نہیں ہونے دی ۔آج اس زمین کی قیمت 3000 روپے فی مربع میٹر سے زائد ہے۔اس کی قیمت کے حساب سے زمین کی متوقع قیمت 6228 کروڑ روپے ہے۔اسی طرح لارسن اینڈ ٹربرو (ایل اینڈ ٹی) کمپنی پر نریندر مودی نے خاص مہربانی کی۔ 800000 مربع میٹر اس کمپنی کو 1 روپے فی مربع میٹر کے حساب سے زمین دے دی گئی جبکہ صرف 850600 مربع میٹر زمین کسی اور کمپنی کو 700 روپے فی مربع میٹر کی شرح سے الاٹ کی گئی۔ اس طرح نریندر مودی نے 76 کروڑ کی زمین لارسن اینڈ ٹربرو کو صرف 80 لاکھ روپے میں الاٹ کردی۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو بغیر نیلامی کے سرکھیج گاندھی نگر شاہراہ پر زمین کی الاٹمنٹ کر دیا گیا۔ یہ زمین ریاست میں سب سے قیمتی جگہوں میں سے ایک ہے۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو 21300 مربع میٹر زمین صرف 4424 روپے میں دی گئی۔ جب کہ اس کا موجودہ مارکیٹ کی قیمت 1 لاکھ روپے فی مربع میٹر ہے۔ اس الاٹمنٹ سے گجرات کے فنڈ کو 203 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔گجرات ا سٹیٹ پیٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کے پیپا پاواو پاور پلانٹ کے 49 فیصد حصص سوان انرجی کو بغیر ٹیینڈر جاری کئے فروخت کردئے گئے۔ اس گھپلے میں سوان انرجی کو 12 ہزار کروڑ کا فائدہ ہوا جبکہ اس نے صرف 380 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔گجرات حکومت نے سن 2003، 2005، 2007، 2009 اور 2011 میں سرمایہ کاری کانفرنس کی تھی۔ زیادہ تر کمپنیوں نے بڑے شہروں کے پاس زمین طلب کی جو کہ بہت زیادہ مہنگی تھی۔ ریاستی حکومت نے ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اونے پونے دام پر یہ زمینیں الاٹ کر دی جبکہ اس کی نیلامی کی جانی چاہئے تھی۔
اب جب کہ سپریم کورٹ نے لوک آیکت کی تقرری کو درست قرار دیا ہے اور لوک آیکت کی تحقیقات سے نئے نئے گھپلے سامنے آئیں گے۔ لیکن نریندر مودی کمال ہوشیاری سے زمین گھپلے کیلئے ایک الگ سے انکوائری کمیشن بٹھا دی ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ گجرات وہ کان ہے وہاں جو بھی جاتاہے اسی کا حصہ بن جاتا ہے۔ گجرات ایس آئی ٹی کا کیا حال ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ ناناوتی کمیشن اب تک تحقیقات میں مصروف ہے اور دس سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے اور حالیہ دنوں میں اس کی میعاد میں چھ ماہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مودی حکومت پر صنعتی گروپوں کو دی گئی ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی زمین کو لے کر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی جانچ شاید ہی لوک آیکت کر پائے کیوں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کی جانچ کے لئے مودی حکومت پہلے ہی شاہ کمیشن کی تقرری کر چکی ہے جو 1980 کے بعد الاٹ سرکاری زمینوں کے فیصلوں کی جانچ کرے گا۔قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لوک آیکت ایکٹ کے مطابق پہلے سے کمیشن کے تحت چل رہی جانچ کے معاملے لوک آیکت نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے میں گجرات کانگریس کے اور دیگر کے مودی حکومت پر ایک لاکھ کروڑ روپے کے بدعنوانی کے ان الزامات کی بھی ہوا نکل سکتی ہے کیوں کہ گجرات میں نریندر مودی کی مرضی کے بغیر کمیشن کی رپورٹ کیا ہوگی یہ سب جانتے ہیں۔ ایک طرف نریندر مودی اور اس کی پارٹی بی جے پی مرکزی حکومت کے گھپلوں پر اسے پانی پی پی کوستی ہے مگرجب اپنی ریاست کی باری آئی تو وہی کرتی ہے جو بدعنوان اور مطلق العنان حکومت کرتی ہے۔ ہندوستان کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کا مڈل کلاس بی جے پی اور نریندر مودی کے کسی جرم کو جرم نہیں گردانتا۔اگربی جے پی اور نریندر مودی کے جرم کولائق سزاوار تصور کرتا تو اسے مسلسل تیسری بار گجرات حکومت کا باگ دوڑ نہیں سونپا۔ گجرات میں اتنے بڑے قتل عام اور اتنے گھپلے ہونے کے باوجود مودی ہندوستانی مڈل کلاس کا ہیرو ہے جو نیک شگون قطعی نہیں ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
فاشسٹ طاقت کی ایک خاص شناخت ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کبھی نہیں کرتی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی دلیل کو تسلیم کرتی ہے ۔ ان کی سوچ پتھر کی طرح سخت ہوتی ہے جس پر کسی سچ کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اس آئیڈیا لوجی پر سختی سے قائم رہتی ہے بلکہ اس کا دفاع بھی نہایت مضبوطی کے ساتھ کرتی ہے خواہ اسے کہیں سے کوئی لنگڑی لولی دلیل یا اسے اپنی ہی کہی ہوئی گزشتہ بات سے انحراف ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور کتنے ہی دہرے پیمانے کیوں نہ اپنانے پڑے وہ کبھی بھی اس میں کوئی جھجھک اور عار محسوس نہیں کرتی۔ ان فرقہ پرست طاقتوں کی بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی دوسری ریاست میں کوئی بات پیش آجائے اور معاملہ مسلمانوں کا نہیں ہے تو آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں۔ جرائم کا کوئی معاملہ ہو اسے اپنی ریاست نظر میں نہیں آتا۔ مدھیہ پردیش میں ایک آئی پی ایس افسر کا پتھر مافیا نے قتل کردیا لیکن قانون و انتظام پر کوئی سوال نہیں اٹھا جب کہ اس میں حکمراں پارٹی کے اہلکاربھی شامل تھے لیکن یہ معاملہ میڈیا میں کوئی خاص جگہ بنانے میں ناکام رہا تھا۔ بدعنوانی کے خلاف جب انا ہزارے نے 2011 میں مہم شروع کی تھی تو اس وقت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے مہم کو کامیاب بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا جس کا اعتراف اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی کیا تھا لیکن انا کی ٹیم کو گجرات میں لوک آیکت کی خالی جگہ اور نہ ہی وہاں کا کرپشن نظر آیا۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ایک چپراسی سے لیکر ایک اعلی افسران کے گھر چھاپے میں اربوں روپے کی ناجائز دولت برآمد ہوتی رہی ہے لیکن ان طاقتوں کو بدعنوانی نظر نہیں آئی۔ بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف سب سے زیادہ مورچہ سنبھال رکھا ہے لیکن اسے کرناٹک ، چھتیس گڑھ. مدھیہ پردیش، گجرات اور اپنی حکمرانی والی دیگر ریاستوں کی بدعنوانی نظرنہیں آتی۔ گجرات قتل عام کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ پوری دنیا میں اس قتل عام کی مذمت کی اور بہت سے ممالک نے مودی کو ویزا دینے پر پابندی عائد کردی ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں دنیا کے سامنے کون سال منہ لے جاؤں گا اور مودی کو انہوں نے ’راج دھرم‘ نبھانے کا مشورہ دیا تھا جس پر مودی نے کہا تھا کہ انہوں نے ’راج دھرم‘ ہی نبھایا ہے۔ گویا قتل عام انجام دینا ان کا راج دھرم رہا ہو۔ ہزاروں بار ان سے قتل عام پر معافی مانگنے کے لئے کہا گیا اور درجنوں بار سپریم کورٹ نے ان کے رویے پر سرزنش کی لیکن فاشسٹ کی شناخت کے مطابق ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہے۔ یہی رویہ نریندر مودی نے لوک آیکت کے سلسلے میں اپنایا۔ گزشتہ دس برسوں سے انہیں لوک آیکت کو مقرر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ آخر کار گورنر ڈاکٹر کملا بینی وال نے گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے کرنے کے بعد جسٹس (سبکدوش ) مہتا کو لوک آیکت مقرر کردیا تو فرقہ پرستوں وفاقی ڈھانچہ پر حملہ نظر آنے لگا ۔چھوٹے سے بڑے لیڈر نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو وفاقی ڈھانچہ حملہ قرار دیا۔
لوک آیکت کی تقرری کا معاملہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک پہنچا اور سپریم کورٹ نے اسے صحیح قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس آر اے مہتا کو گجرات کا لوک آیکت مقرر کئے جانے کے گورنر کملا بینی وال کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ریاستی حکومت کی اپیل کو مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جسٹس مہتا کی تقرری کو قانونی قرار دیا ۔عدالت نے کہا کہ گورنر وزارتی کونسل کی مشورہ کے تحت کام کرنے کے لئے مجبور ہے لیکن جسٹس مہتا کی تقرری درست تھی کیونکہ یہ فیصلہ گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے کے بعد کیا گیا تھا۔ جسٹس مہتا کو اگست 2011 میں گجرات کا لوک آیکت مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے گجرات ہائی کورٹ نے بھی مہتا کی تقرری کو صحیح قرار دیا تھا اور وزیر اعلی مودی پر تنقید کی تھی۔ سپریم کورٹ نے کورٹ نے2جنوری2013 کو اپنے فیصلے میں کہا تھا وزیر اعلی اس بھرم میں کام کر رہے ہیں کہ وہ چیف جسٹس کی برتری اور اہمیت کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔جسٹس مہتا کی تقرری کے خلاف ریاستی حکومت کی درخواست کو مسترد کرکے مودی حکومت کو ایک بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔ گجرات حکومت نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ گورنر کملا بینی وال نے گجرات حکومت سے مشورہ کئے بغیر ہی لوک آیکت کی تقرری کر دی تھی۔گجرات کے لوک آیکت کے عہدے پر جسٹس آراے مہتا کی تقرری پر سپریم کورٹ کی مہر لگنے کے بعد گجرات حکومت نے بھی اس پر عمل کا اعلان کر دیا ہے۔گجرات کے وزیر قانون بھوپیندر سنگھ چڈاسما نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ عدالت کے فیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں اور ہم اس پر جلد ہی عمل کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی اتنی ہی صاف و شفاف ہے تو اسے لوک آیکت سے کیوں ڈر لگ رہا ہے۔ کیا وہ کرناٹک کے یدی یورپا کے گھپلہ میں پھنسنے کی وجہ سے پریشان ہیں اور یہ خوف ستا رہاہے کہ کہیں ان کا حشر بھی یدی یورپا جیسا نہ ہو ۔ ایسا نہیں ہے کہ گجرات میں بدعنوانی نہیں ہوئی ہے ۔ وہاں بدعنوانی کا بول بالا ہے ۔ بدعنوانی کو اجاگر کرنے والا میڈیا نریندر مودی اور بی جے پی کی مٹھی میں ہے۔ کانگریس وہاں بالکل ناکارہ ہے۔ بدعنوانی پر نظر رکھنے کے لئے وہاں کوئی ڈھانچہ نہیں ہے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ نریندر مودی کے خلاف کوئی آواز اٹھاسکے۔ ایسی صورت میں بدعنوانی اجاگر ہوگی تو کیسے ہوگی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق گجرات میں ایک لاکھ کروڑ روپے زیادہ کا گھپلہ ہوا ہے۔ نینو کے لئے ساند (احمد آباد) میں قائم نینو کار پروجیکٹ کے لئے گجرات کی مودی حکومت کے ذریعہ کئے گئے لامحدود بدعنوانی کا ایک بڑی مثال ہے، جس سے گجرات کو 33 ہزار کروڑ سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا ہے ۔ شروع میں یہ پروجیکٹ سنگور (مغربی بنگال) میں قائم کیا گیا تھا لیکن ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بینرجی کی زبردست مخالفت کی وجہ سے یہ پروجیکٹ خطرے میں پڑگیا تھا ۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے نریندر مودی نے ٹاٹا موٹرز سے خفیہ ڈیل کی۔بظاہر وہ یہ کہتے رہے کہ نینو کار پروجیکٹ کے لئے پہل کر کے وہ گجرات کی خوشحالی کے دروازے کھول رہے ہیں۔ مودی اور ٹاٹا کے درمیان اس ڈیل میں نیرا راڈیا نے بچولیے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈیل کے تحت گجرات حکومت نے ٹاٹا موٹرز لمیٹڈ کو نینو کار پروجیکٹ سنگور (مغربی بنگال) سے ساند (گجرات) میں لانے کے لئے 700 کروڑ روپے دیے۔ پورے پروجیکٹ کی قیمت اب 2900 کروڑ روپے ہو گئی تھی۔ اس پروجیکٹ میں ٹاٹا موٹرز کو 1100 ایکڑ زمین 900 روپے اسکوائر میٹر کے حساب سے دی گئی اور صرف 400 کروڑ روپے ہی ٹاٹا موٹرز سے لئے گئے جبکہ اس وقت اس زمین کی قیمت 4000 روپے فی اسکوائر میٹر تھی جب کہ یہ زمین ایک یونیورسٹی کے لیے مختص تھی۔اسی مودی حکومت نے ادانی گروپ کو فائدہ پہنچاکر ریاست کو دس ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے ادانی لینڈ کو مدرا پورٹ اور مدرا اسپیشل اکونومی زون کی تعمیر کے لئے زمین الاٹمنٹ میں براہ راست 10 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔گروپ کو 38683790 اسکوائر میٹر زمین کا الاٹمنٹ 2003۔04 میں کیا گیا تھا۔اس زمین کے بدلے میں کمپنی نے 46,03,16,92 روپے قیمت ادا کی۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس کے لئے سرکاری قیمت 1 روپے سے 32 روپے فی اسکوائر میٹر رکھی گئی لیکن زیادہ تر زمینیں 1 روپے فی اسکوائر میٹر کے حساب سے ہی دے دی گئی۔ اس زمین کا رقبہ طے کرکے اس کو کچھ ہزار اسکوائر میٹر کے چھوٹے پلاٹوں میں پبلک سیکٹر کمپنیوں کو 800 سے 10 ہزار روپے فی اسکوائر میٹر میں الاٹ کر دیا گیا۔ ادانی گروپ نے یہی زمین 800 روپے اسکوائر میٹر سے لے کر 10000 روپے اسکوائر میٹر کی قیمت میں دوسری کمپنیوں کو فروخت کی۔ اس سے حکومت کے خزانے کو تقریبا 10 ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔اسی طرح نریندر مودی حکومت نے نوساری ایگریکلچر یونیورسٹی کی پرائم لوکیشن کی زمین بغیر نیلامی کے عمل کے ایک 7 سٹار ہوٹل بنانے کے لئے دے دی گئی۔ سورت شہر کی یہ زمین وہاں کے کسانوں نے ایک بیج فارم کے قیام کے لیے 108 سال پہلے عطیہ کی تھی۔ اس زمین کوسورت میونسپل کارپوریشن بھی حاصل کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے واٹر ٹریٹمنٹ پروجیکٹ کیلئے ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود اسے نہ دے کر چھترالا گروپ کو یہ زمین دی گئی ۔ وہ بازار کی قیمت انتہائی کم پر۔ چھترا لاگروپ نے 224کروڑ ادا کیا جب کہ بازارکی قیمت 650 کروڑ روپے تھی۔ اسی طرح ایسسار گروپ اور دیگر گروپوں کو زمین اور دیگر رعایتیں من مانے طریقے سے دی گئی ہیں۔ایسسار کو گجرات حکومت نے20,760,000مربع میٹر زمین الاٹ کر دی جس سے کافی زمین کا حصہ (کوسٹل ریگلیشن زون) (سی آر زیڈ) اور فاریسٹ کے علاقے میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ضابطے کے مطابق کوئی بھی ترقیاتی کام یا تعمیر (سی آر زیڈ) اور جنگلاتی زمین کے اوپر نہیں ہو سکتی اور حکومت گجرات نے یہ زمین کوڑیوں کی قیمت پر ایسسار گروپ کودے دی۔جو زمین ایسسار گروپ کو الاٹ کی گئی ہے وہ جنگلاتی زمین ہے اور اسی وجہ سے فاریسٹ آفیسر کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ انڈین فاریسٹ ایکٹ 1927 کے تحت چار الگ الگ طرح کے معاملات بھی درج کئے گئے اور 20 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا اور اس جنگلاتی زمین پر جو غیر قانونی تعمیر کرایا گیا تھااسے فوری طور پر توڑنے اور وہ زمین فوری محکمہ جنگلات کو واپس کرنے کے لئے کہاگیا تھا ۔ مودی نے ایسسار گروپ پر کوئی کارروائی نہیں ہونے دی ۔آج اس زمین کی قیمت 3000 روپے فی مربع میٹر سے زائد ہے۔اس کی قیمت کے حساب سے زمین کی متوقع قیمت 6228 کروڑ روپے ہے۔اسی طرح لارسن اینڈ ٹربرو (ایل اینڈ ٹی) کمپنی پر نریندر مودی نے خاص مہربانی کی۔ 800000 مربع میٹر اس کمپنی کو 1 روپے فی مربع میٹر کے حساب سے زمین دے دی گئی جبکہ صرف 850600 مربع میٹر زمین کسی اور کمپنی کو 700 روپے فی مربع میٹر کی شرح سے الاٹ کی گئی۔ اس طرح نریندر مودی نے 76 کروڑ کی زمین لارسن اینڈ ٹربرو کو صرف 80 لاکھ روپے میں الاٹ کردی۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو بغیر نیلامی کے سرکھیج گاندھی نگر شاہراہ پر زمین کی الاٹمنٹ کر دیا گیا۔ یہ زمین ریاست میں سب سے قیمتی جگہوں میں سے ایک ہے۔ بھارت ہوٹل لمیٹڈ کو 21300 مربع میٹر زمین صرف 4424 روپے میں دی گئی۔ جب کہ اس کا موجودہ مارکیٹ کی قیمت 1 لاکھ روپے فی مربع میٹر ہے۔ اس الاٹمنٹ سے گجرات کے فنڈ کو 203 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔گجرات ا سٹیٹ پیٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کے پیپا پاواو پاور پلانٹ کے 49 فیصد حصص سوان انرجی کو بغیر ٹیینڈر جاری کئے فروخت کردئے گئے۔ اس گھپلے میں سوان انرجی کو 12 ہزار کروڑ کا فائدہ ہوا جبکہ اس نے صرف 380 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔گجرات حکومت نے سن 2003، 2005، 2007، 2009 اور 2011 میں سرمایہ کاری کانفرنس کی تھی۔ زیادہ تر کمپنیوں نے بڑے شہروں کے پاس زمین طلب کی جو کہ بہت زیادہ مہنگی تھی۔ ریاستی حکومت نے ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اونے پونے دام پر یہ زمینیں الاٹ کر دی جبکہ اس کی نیلامی کی جانی چاہئے تھی۔
اب جب کہ سپریم کورٹ نے لوک آیکت کی تقرری کو درست قرار دیا ہے اور لوک آیکت کی تحقیقات سے نئے نئے گھپلے سامنے آئیں گے۔ لیکن نریندر مودی کمال ہوشیاری سے زمین گھپلے کیلئے ایک الگ سے انکوائری کمیشن بٹھا دی ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ گجرات وہ کان ہے وہاں جو بھی جاتاہے اسی کا حصہ بن جاتا ہے۔ گجرات ایس آئی ٹی کا کیا حال ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ ناناوتی کمیشن اب تک تحقیقات میں مصروف ہے اور دس سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے اور حالیہ دنوں میں اس کی میعاد میں چھ ماہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مودی حکومت پر صنعتی گروپوں کو دی گئی ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی زمین کو لے کر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی جانچ شاید ہی لوک آیکت کر پائے کیوں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کی جانچ کے لئے مودی حکومت پہلے ہی شاہ کمیشن کی تقرری کر چکی ہے جو 1980 کے بعد الاٹ سرکاری زمینوں کے فیصلوں کی جانچ کرے گا۔قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لوک آیکت ایکٹ کے مطابق پہلے سے کمیشن کے تحت چل رہی جانچ کے معاملے لوک آیکت نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے میں گجرات کانگریس کے اور دیگر کے مودی حکومت پر ایک لاکھ کروڑ روپے کے بدعنوانی کے ان الزامات کی بھی ہوا نکل سکتی ہے کیوں کہ گجرات میں نریندر مودی کی مرضی کے بغیر کمیشن کی رپورٹ کیا ہوگی یہ سب جانتے ہیں۔ ایک طرف نریندر مودی اور اس کی پارٹی بی جے پی مرکزی حکومت کے گھپلوں پر اسے پانی پی پی کوستی ہے مگرجب اپنی ریاست کی باری آئی تو وہی کرتی ہے جو بدعنوان اور مطلق العنان حکومت کرتی ہے۔ ہندوستان کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کا مڈل کلاس بی جے پی اور نریندر مودی کے کسی جرم کو جرم نہیں گردانتا۔اگربی جے پی اور نریندر مودی کے جرم کولائق سزاوار تصور کرتا تو اسے مسلسل تیسری بار گجرات حکومت کا باگ دوڑ نہیں سونپا۔ گجرات میں اتنے بڑے قتل عام اور اتنے گھپلے ہونے کے باوجود مودی ہندوستانی مڈل کلاس کا ہیرو ہے جو نیک شگون قطعی نہیں ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment